💬 📜

Discover Life-Changing Quotes

Click to explore thousands of inspirational quotes


آلوک شرما نے کہا کہ ’’بھوپال ایمس کے ذریعہ کینسر کی ’جیمسیٹا بائن‘ انجکشن کی خریداری 2100 روپے فی انجکشن کے حساب سے کی گئی، جبکہ دہلی ایمس میں صرف 285 روپے فی انجکشن کے حساب سے خریدی گئی تھی۔‘‘

علامتی/ یو این آئی
علامتی/ یو این آئی
user

مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں واقع آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں ادویات کی خریداری میں گھوٹالے کا ایک بڑا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس کی تحقیقات کے لیے مرکزی وزارت صحت و خاندانی بہبود کی ایک خصوصی ٹیم نے ایمس کا دورہ کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے ادویات کی خریداری سے متعلق دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لیا اور ایمس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اجے سنگھ سمیت انتظامیہ کے سینئر اہلکاروں کے ساتھ تقریباً 4 گھنٹے تک میٹنگ کر خریداری کے پورے عمل سے متعلق معلومات حاصل کیں۔

یہ معاملہ بھوپال کے رکن پارلیمنٹ آلوک شرما نے اٹھایا تھا، جو ایمس کی اسٹینڈنگ فائنانس کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ انہوں نے اس مسئلہ کو 15 مئی کو دہلی کے نرمان بھون میں منعقد ایک میٹنگ میں اٹھایا تھا۔ اس میٹنگ میں مرکزی ہیلتھ سکریٹری پنیا سلیلا سریواستو بھی موجود تھیں۔ آلوک شرما نے بتایا کہ انہیں شکایت موصول ہوئی تھی کہ بھوپال ایمس کے ذریعہ کینسر کی ’جیمسیٹا بائن‘ انجکشن کی خریداری 2100 روپے فی انجکشن کے حساب سے کی گئی، جبکہ رائے پور ایمس میں یہ انجکشن 425 اور دہلی ایمس میں صرف 285 روپے فی انجکشن کے حساب سے خریدی گئی تھی۔ اسی طرح دیگر کئی ادویات کی قیمتوں میں بھی کافی فرق پایا گیا۔

رکن پارلیمنٹ آلوک شرما کے مطابق ادویات کی خریداری میں مرکزی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ عام مالیاتی اصول (جی ایف آر 2017) کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ الزام ہے کہ بھوپال ایمس نے ایمرجنسی حالات کے لیے منظور شدہ امرِت فارمیسی سے ہی ادویات کی مکمل فراہمی کرائی، جبکہ یہ صرف محدود اور ایمرجنسی خریداری کے لیے ہی مجاز ہے۔ حالانکہ ایمس کے دیگر اداروں میں ادویات کی خریداری ٹینڈر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کووڈ کے دوران شروع ہونے والی براہ راست خریداری کا عمل اب بھی جاری ہے اور اس کے تحت سالانہ اخراجات 25 کروڑ روپے سے بڑھ کر 60 کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں، جبکہ پہلے یہ صرف 10 سے 15 لاکھ روپے تھا۔ یہ اضافہ ممکنہ مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔


Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here