اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر میزائل حملے کیے اور زمینی کارروائی کے ذریعے خطے میں جارحیت کا دائرہ خطرناک حد تک پھیلا دیا۔ شروع میں ٹرمپ نے تاثر دیا کہ ان کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر جب وہ G-7 سربراہی اجلاس کو ادھورا چھوڑ کر واپس آئے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا، ’’ہمیں معلوم ہے کہ مبینہ سپریم لیڈر (آیت اللہ علی خامنہ ای) کہاں چھپے ہیں۔ وہ ایک آسان ہدف ہیں، مگر محفوظ ہیں۔ ہم ابھی انہیں مارنے نہیں جا رہے، کم از کم فی الحال نہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ میزائل عام شہریوں یا امریکی فوجیوں پر گرے۔ ہمارا صبر لبریز ہو چکا ہے۔‘‘ تو حقیقت عیاں ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ایران سے ’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ کیا۔
ایک دن پہلے انہوں نے کہا تھا، ’’ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہو سکتے۔ ہم ہر زاویے سے نگرانی کر رہے ہیں اور ان کی فضاؤں پر ہمارا مکمل کنٹرول ہے۔ وہ جانتے ہیں اور خوف زدہ ہیں۔ اگر انہوں نے ایٹمی ہتھیار کی طرف ایک قدم بھی بڑھایا، تو ان کا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔‘‘ بعد ازاں ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے نیتن یاہو کو ’حملے جاری رکھنے‘ کی ترغیب دی تھی۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس کا سخت جواب دیا اور کہا، ’’جو لوگ ایران، اس کی قوم اور اس کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس ملک سے دھمکیوں کی زبان میں بات نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ایرانی سر جھکانے والے لوگ نہیں۔‘‘ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے ان کے اس بیان کو نشر کیا، ’’کسی بھی امریکی فوجی مداخلت کا نتیجہ ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔‘‘