مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس پر عدالت کا حتمی فیصلہ جلد ہی آ جائے۔ کیونکہ اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق نئے وقف قوانین کی متنازعہ شقوں پر روک کے باوجود کئی مقامات پر مساجد اور درگاہوں کو غیرقانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔ اس میں اتراکھنڈ میں واقع ایک وقف درگاہ کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح نیپال کی سرحد سے متصل اتر پردیش کے کئی اضلاع میں کئی مدرسوں، قبرستانوں، عیدگاہوں اور مسجدوں تک کو غیرقانونی یا سرکاری زمین پر واقع قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔
مولانا مدنی کے مطابق جو لوگ آئین کی بالادستی کو ختم کر چکے ہوں، ان سے قانون کے احترام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اقتدار کے نشے میں خود کو ہی قانون سمجھ بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی مولانا مدنی نے کہا کہ وقف ’صدقہ‘ کی ایک شکل ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ وقف کو لے کر پچھلے کچھ عرصے سے بہت زیادہ جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلایا گیا ہے اور اکثریتی طبقہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وقف کی آڑ میں مسلمانوں نے سرکاری زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جبکہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وقف املاک پر سب سے زیادہ قبضہ حکومت نے ہی کر رکھی ہے۔ یہ وقف ترمیمی قانون اس لیے لایا گیا ہے کہ اس غیر قانونی قبضے کو قانونی تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ دیگر وقف املاک پر قبضے کی راہ کو آسان بنایا جا سکے۔