💬 📜

Discover Life-Changing Quotes

Click to explore thousands of inspirational quotes


روہن بسویا نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا تھا کہ خوشحال فوجی وراثت کے باوجود گوجر کو سکھ، جاٹ، راجپوت، گورکھا اور ڈوگرا جیسے دیگر فوجی طبقات کے برعکس ایک وقف ریجمنٹ نہیں دیا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>ہندوستانی فوج، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

ہندوستانی فوج، تصویر آئی اے این ایس

user

دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو ہندوستانی فوج میں ’گوجر ریجمنٹ‘ تشکیل دینے کی ہدایت کا مطالبہ کرنے والی مفاد عامہ عرضی کو خارج کر دیا ہے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا کی ڈویژنل بنچ نے مفاد عامہ عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا اور اسے پوری طرح سے تقسیم کرنے والا عمل بتایا۔

دراصل روہن بسویا نامی شخص نے دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ عرضی داخل کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خوشحال فوجی وراثت کے باوجود گوجر کو سکھ، جاٹ، راجپوت، گورکھا اور ڈوگرا جیسے دیگر فوجی طبقات کے برعکس ایک وقف ریجمنٹ نہیں دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران روہن بسویا اپنے وکیل کے ساتھ ذاتی طور پر پیش ہوئے تھے۔ اس عرضی پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت نے وکیل کو متنبہ کیا کہ مدعی پر جرمانہ لگایا جائے گا۔

چیف جسٹس نے عرضی دہندہ کے وکیل سے کہا کہ برائے کرم سمجھیں کہ آپ مینڈیمس (حکم) کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مینڈیمس کے لیے کیا شرط ہے؟ کسی قانون یا آئین کے ذریعہ آپ کو کوئی حق دیا جانا چاہیے۔ ایسا کون سا قانون ہے جو آپ کو اس طرح کی ریجمنٹ رکھنے کا حق دیتا ہے؟ وہ حق کہاں ہے؟ عدالت نے سوال کیا کہ ہندوستانی آئین یا کسی دیگر ایکٹ یا رسم پر مبنی قانون کا کون سا التزام کسی خاص طبقہ کے لوگوں کو ریجمنٹ رکھنے کا حق دیتا ہے۔ بنچ نے وکیل کو ایسی مفاد عامہ عرضیوں کو لینے سے پہلے تحقیق کرنے کا مشورہ دیا، جس کے بعد وکیل نے عرضی واپس لے لی۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ کچھ دیر تک بحث کرنے کے بعد عرضی دہندہ کے وکیل نے بتایا کہ انھیں عرضی دہندہ سے ہدایت ملی تھی، جو عدالت میں موجود ہیں، اور عرضی واپس لینے کے لیے کہا گیا ہے۔ اسے واپس لیا گیا مان کر خارج کیا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مفاد عامہ عرضی میں کہا گیا تھا کہ ہندوستانی فوج نے تاریخی طور سے نسل پر مبنی ریجمنٹ بنا رکھی ہیں، جو قومی دفاع میں خصوصی طبقات کے تعاون پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ لیکن اس نظام سے گوجر کو باہر رکھنے سے نمائندگی میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14 و 16 کے تحت ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here