💬 📜

Discover Life-Changing Quotes

Click to explore thousands of inspirational quotes


وفاقی کابینہ نے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوص کی اعلیٰ حکمت عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شکست دینے پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر (نشان امتیاز ملٹری) کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دے دی۔

ادھر پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کا رابطہ ہوا ہے، جس میں افواج کو فرنٹ لائن سے ہٹانے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ ادھر بدھ کے روز بلوچستان کے شہر خضدار میں بچوں کو اسکول لے جانے والی ایک بس پر خودکش حملے کے نتیجے میں 3 بچوں سمیت 5 افراد شہید اور 38 شدید زخمی ہوگئے۔

 بلاشبہ آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کا کریڈٹ سپہ سالار حافظ سید عاصم منیر کو جاتا ہے، ان کی جدید جنگی حکمت عملی کے سبب بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، لٰہذا ان کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی کو سراہا گیا ہے۔

ان کا اہم قومی امور کے حل میں انتہائی کلیدی کردار رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ملک کی معیشت کی مضبوطی، خارجہ امور، دہشت گردی کے خاتمے، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ سمیت اہم ترین مسائل کے حل میں وفاقی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ دوسری جانب پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے کے نتیجے میں افواج کو فرنٹ لائن سے ہٹانے پر اتفاق ہونا خوش آیند امر ہے،کیونکہ امن کا راستہ اختیار کرنے میں دونوں ممالک کے عوام کی بھلائی پوشیدہ ہے۔

 بلوچستان کے شہر خضدار میں دہشت گردوں کا اسکول کے معصوم طلبہ پر حملہ کرنا انسانیت سے گرا ہوا فعل ہے، ان درندہ صفت عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ دہشت گردوں نے پاکستان کے مختلف حصوں کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ چاہے وہ مساجد ہوں، تعلیمی ادارے، بازار، فوجی تنصیبات یا عام شہری، دہشت گردوں کے حملوں نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی محض ایک داخلی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیرونی عوامل بھی کارفرما ہیں۔

بعض عالمی طاقتیں اور ہمسایہ ممالک پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں، اور انھوں نے بعض علیحدگی پسند اور شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کر کے پاکستان میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہے۔ ان گروہوں کو مالی، فکری اور عسکری معاونت فراہم کی جاتی رہی ہے، جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔

 بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انٹیلجنس بیسڈ آپریشنز کیے جارہے ہیں، دہشت گرد سرحد پار چلے جاتے ہیں مگر افغانستان کا ان دہشت گردوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے یا وہ کنٹرول کرنا نہیں چاہتا۔ بلوچستان میں اکثر بسوں میں اسلحہ بردار نقاب پوش داخل ہوتے ہیں۔ بس میں سوار مسافروں کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور جن کا شناختی کارڈ پنجاب کا ہو، انھیں قتل کردیتے ہیں جب کہ باقی مسافروں کو بس سمیت آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے بعد ازاں ان افراد کی لاشیں ملتی ہیں۔

اب خضدار میں اسکول کے طلبہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔ میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اگرچہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے مسئلے پر بہت بات کرتی ہیں۔

اس پر دھرنے، لانگ مارچ اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن بلوچستان میں دہشت گرد جو ظلم کررہے ہیں،ان کے بہیمانہ قتل و غارت پر سول سوسائٹی اور اہل علم کا رردعمل خاصا کمزور نظر آتا ہے۔ بلوچستان میںدہشت گردوں نے متعدد بے قصور ڈاکٹرز، پروفیسرز، اساتذہ، کاروباری افراد اور محنت کشوں کو قتل کیاہے،اب اسکول کے بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے، اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

 افغانستان مسلسل دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہے ، افغانستان کی کسی حکومت نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گینگز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی ہے ۔ پاکستان میں ایک مخصوص لابی دہائیوں سے پاکستان کے مفادات کے برعکس افغانستان کے مخصوص گروہوں کے ساتھ ہم آہنگ چلی آرہی ہے۔پاکستان نے جب بھی افغانستان کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی تیاری کی تو اس لابی نے پاکستان کے سسٹم کو دباؤ میں لاکر کچھ نہیں کرنے دیا۔

کوئی ان سے پوچھے کہ کیا افغان سیاسی عمائدین اور ان کا کاروباری طبقہ بھی پاکستان کے حق میں ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان دونوں برابر ہیں۔ درحقیقت دہشت گردی کو ایک مناسب ڈھانچے میں تبدیل کردیا گیا ہے، بشمول منشیات جو یہاں تیار نہیں کی جاتی ہیں وہ افغانستان سے آتی ہیں۔ ہنڈی/ حوالہ کا نظام پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے قائم ہے۔

یہ اتنے لمبے عرصے سے دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کے کالے دھن کو لانڈرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ یہ بہت سے جائز کاروباروں میں کامیاب رہتا ہے اور ہمارے لوگوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔

جرائم کی زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرائع سے ہوتی ہے، یعنی بدعنوانی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی جوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں۔ طویل عرصے بعد لگا تار دہشت گردی کی کارروائیوں نے واضح کر دیا ہے کہ مبہم اور نیم دلانہ پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا، ساتھ ہی بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے بہت سے سوال موجود ہیں جن کا جواب دوعملی کا چولا اتار کر سیاسی اور تزویراتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر تلاش کرنا پڑے گا۔

 پاکستان میں اسمگلنگ اور بلیک منی ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس کا ملکی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ اس پر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں موجود بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر طرح طرح سے ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں تیزی سے مصروف عمل ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسمگلنگ ہے، اگرچہ معیشت کی تباہی میں اپنے حجم کے اعتبار سے اس کا حصہ دیگر بد اعمالیوں کے مقابلے میں کم نظر آتا ہے، لیکن اس کے اثرات کثیر الجہتی ہیں۔ اس سے ایک جانب قومی خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری جانب بہت سی صنعتیں اور کاروبار اس کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں یا ہو رہے ہیں۔

جہاں دہشت گردی نے ملک کی سلامتی کو نشانہ بنایا، وہیں اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر سال اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہو جاتا ہے کیونکہ اسمگلنگ شدہ اشیاء قانونی راستوں سے ملک میں داخل نہیں ہوتیں، جس کے باعث حکومت کی آمدنی کم ہوتی ہے۔ یہ آمدنی وہی ہے جس سے صحت، تعلیم، سڑکوں اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ جب ریاست کے مالی وسائل کم ہوں گے تو عوامی خدمات بھی متاثر ہوں گی، اور یوں ایک عام شہری ہی اس کا سب سے بڑا متاثر بنتا ہے۔

اسمگلنگ کی وجہ سے ملک کی مقامی صنعتیں بھی شدید متاثر ہوتی ہیں۔ جب اسمگل شدہ سستی اشیاء بازار میں دستیاب ہوتی ہیں تو مقامی کارخانے اور کاروباری افراد ان کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً کارخانے بند ہو جاتے ہیں، بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشی بدحالی جنم لیتی ہے۔ اس کے علاوہ اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہے، جن میں منشیات کی خرید و فروخت، غیرقانونی ہتھیاروں کی ترسیل، اور بعض اوقات دہشت گردی کی فنڈنگ بھی شامل ہوتی ہے۔ دہشت گردی اور اسمگلنگ کے پیچھے بعض اوقات وہی عناصر ہوتے ہیں جو ریاستی نظام میں شامل ہو کر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ ریاستی نظام کی کمزوری اور بدعنوانی کا ثبوت ہے، جو ان مسائل کو مزید سنگین بناتا ہے۔

 اداروں کے مابین بہتر رابطہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات اور انفورسمنٹ کے نظام کو جدید بنانا ناگزیر ہے تاکہ پاکستان معاشی لحاظ سے ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اور صرف ہماری ہے، ملک اور نسل کی بقا کی جنگ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

دانش مندانہ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکل کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنی ہوں گی۔ نظام میں اصلاحات کا کام سویلین حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ مصلحتوں کا بالائے طاق رکھ کر بلوچستان میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور آپریشن کرکے بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنایا جائے۔



Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here