💬 📜

Discover Life-Changing Quotes

Click to explore thousands of inspirational quotes


لاہور ہائی کورٹ نے  12 سال بعد دوہرے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے کو سرکاری وکیل کی طرف سے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکامی پر بری کردیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم اور جسٹس عبہر گل خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی جمعرات کو سماعت کی۔

اپیل کنندہ کے وکیل ایڈووکیٹ عثمان تسنیم نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، مقدمہ کی ایف آئی آر اور پوسٹمارٹم تاخیر سے ہوا، غلام عباس کا مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ٹرائل کورٹ کا سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

پراسیکیوٹر نے اپیل کی مخالفت کی اور کہاکہ غلام عباس کو 2013 میں سحرش اور کامران کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا گیا۔

2020میں غلام عباس کو ٹرائل کے بعد سزائے موت کا حکم سنایا تھا اور اس حوالے سے ثبوت موجود ہیں۔

عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد اپیل منظور کرتے ہوئے غلام عباس کو ماتحت عدالت کی طرف سے سنائی جانیوالی سزا کالعدم قرار دے کر بری کردیا۔



Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here