💬 📜

Discover Life-Changing Quotes

Click to explore thousands of inspirational quotes


سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کے دوران ججوں نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا مستقل بنیادوں پر ججز ٹرانسفر کرکے جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے، ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا؟

جسٹس محمد علی مظہر سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل مؤقف اپنایا کہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ججز ٹرانسفر پر آئیں ہیں تو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکریٹری لا نے ٹرانسفرنگ ججز کے حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی، اٹارنی جنرل  نے کہا کہ وضاحت کیوجہ یہ تھی کہ ایڈوائیز کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے،  چار ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں آٹھایا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ پانچ ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلہ پر درخواست گزار وکلاء نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا، جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلہ کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی استدعا کیا تھی، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلاء نے تمام باتیں نہیں بتائیں، اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ آئین میں آرٹیکل 200 کے تحت ججز کی ٹرانسفر کی معیاد طے شدہ نہیں ہے، تبادلہ ہوکر آنے والے ججز کیلئے وقت مقرر کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے آئین میں نئے الفاظ شامل کیے جائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز ٹرانسفر کا پورا عمل عدلیہ نے کیا ایگزیکٹو کا کردار نہیں تھا، 

جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا، جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ میں سینارٹی لسٹ میں 15نمبر تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ جب ایک جج ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیتا ہے تو اسکی سینارٹی شروع ہو جاتی ہے، ججز کتنا وقت اپنی ہائیکورٹس میں گزار چکے، ٹرانسفر کے بعد انکی معیاد بھی جھلکنی چاہیے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ پینشن اور مراعات  انھیں مل جائیں گی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو آرٹیکل 200 مکمل طور پر غیر موثر ہو جائے گا، کس جج کی سینارٹی کیا ہوگی، یہ اس ہائی کورٹ نے طے کرنا ہوتی ہے۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے سوال پوچھا کہ ٹرانسفر ہوکر آنے والے ججز کہاں کے ججز ہیں،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ابھی طے ہونا باقی ہے، جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ مستقل ججز کی تعیناتی تو جوڈیشل کمیشن کرتا ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کیا مستقل بنیادوں پر ججز ٹرانسفر کرکے جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے، کہا گیا سندھ رولر سے کوئی جج نہیں اس لیے لایا گیا۔

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کیا سندھ سے کوئی جج اسلام آباد ہائی کورٹ میں نہیں تھا،  بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایڈیشنل جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ لایا گیا،  بلوچستان ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر آنے والے ایڈیشنل جج کی کنفرمیشن کونسی ہائیکورٹ کرے گی، کونسی ہائی کورٹ کارکردگی کا جائزہ لے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 175 کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عمل دیا گیا، اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 200 کو نہیں چھیڑا گیا، یہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے، آرٹیکل 175 میں اب آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تمام برانچز کی عکاسی موجود ہے، آرٹیکل 200 کا اختیار مرکزی طور پر عدلیہ ادا استعمال کرتی ہے۔ 

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر وہاں ہو سکتے ہیں جہاں فرض کریں اسلام آباد ہائی کورٹ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹیکس کیسز سننے کیلئے ماہر جج چاہیے تو اس کیلئے عارضی جج لایا جا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ  محدود وقت کیلئے کسی جج کو اس وقت لایا جاتا ہے جب ہائی کورٹ کے مستقل ججز کی تعداد پوری ہو۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینارٹی سے متعلق کیس کی سماعت 29 مئی ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزاران کے وکلاء آئندہ سماعت پر جواب الجواب دلائل دیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ امید ہے آئندہ سماعت پر کیس کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔

 



Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here